28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام
حضرت موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_7
ساتواں_حصہ
◆حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت اور معجزات :-
اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ یہ دنیا فانی ہے دائمی گھر قیامت کو ملے گا جو یقینا قائم ہونے والی ہے۔ ’’ تا کہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جاۓ جو اس نے کوشش کی ہو۔‘‘یعنی نیکی اور بدی کا بدلہ ملے گا۔ اللہ تعالی نے آپ کو اس دن کے لیے عمل کرنے کی ترغیب دی اور ایسے لوگوں سے الگ رہنے کی ہدایت فرمائی جو اپنے مالک کی نافرمانی کرتے ہیں اور اپنے دل کی خواہش کے پیچھے چلتے ہیں۔ پھراپنی قدرت کے اظہار کے لیے اور اپنی کن فیکون کی شان دکھانے کے لیے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: اے موسیٰ! تیرے دائیں ہاتھ میں یہ کیا ہے؟‘‘ کیا یہ وہی لاٹھی نہیں جو تیری دیکھی بھالی ہے جب سے تجھے ملی ہے؟ جواب دیا: یہ میری لاٹھی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے میں اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑ لیا کرتا ہوں اس میں مجھے اور بھی بہت فائدے ہیں ۔‘‘ (طہ)
یعنی یہ وہی لاٹھی ہے جسے میں ارنچی طرح پہچانتا ہوں ۔فرمایا: ”اے موسیٰ! اسے نیچے ڈال دے چنانچہ ان کے ڈالتے ہی وہ سانپ بن کر دوڑ نے لگی ۔‘‘ (طہ: 19/20-20)
یہ ایک عظیم معجزہ تھا اور اس بات کی قاطع دلیل تھی کہ آپ سے کلام کرنے والا وہی اللہ ہے جواپنے امر’’کن‘‘ سے ہر چیز کو پیدا کرتا ہے اور اسے ہر کام کی طاقت حاصل ہے۔
◆بائبل میں مذکور ہے کہ آپ نے اللہ تعالی سے درخواست کی تھی کہ آپ کو ایسی واضح نشانی عطا فرمائی جاۓ جس سے اہل مصر کے سامنے آپ کی صداقت واضح ہو جاۓ ۔ جب اللہ تعالی نے فرمایا:’ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ موسیٰ علیہ تنے فرمایا: ’یہ میری لاٹھی ہے۔ فرمایا اسے زمین پر پھینک دیں ۔‘‘ آپ نے لاٹھی زمین پر پھینک دی تو وہ دوڑنے بھاگنے والا سانپ بن گئی ۔ حضرت موسیٰ ملی اسے دیکھ کر بھاگے تو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ہاتھ بڑھا کر اس کی دم پکڑ لیں ۔ جب آپ نے اسے اچھی طرح پکڑ لیا تو وہ آپ کے ہاتھ میں پھر لاٹھی بن گئی ۔
◆اللہ تعالی نے دوسری آیت میں فرمایا ہے : ’’اور یہ کہ اپنا عصا پھینک دے۔ پھر جب اسے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح پھنپھنا رہا ہے تو پیٹھ پھیر کر واپس ہو گئے اور مڑ کر رخ بھی نہ کیا۔‘(القـصـص :31/28)
یعنی وہ ایک بہت بڑ اسانپ بن گئی ، جس کی جسامت بہت بڑی تھی اور بڑے بڑے دانت تھے ۔ اس کے باوجود اس کی حرکت تیز رفتار پتلے سانپ کی طرح تھی ۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر بھاگے، کیونکہ انسانی فطرت کا یہی تقاضا تھا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ اس وقت اللہ تعالی نے آواز دے کر فرمایا: "اے موسیٰ! آ گے آ ، ڈرمت ، یقینا تو ( ہر طرح ) امن والا ہے ۔‘‘ جب آپ واپس آۓ تو اللہ تعالی نے حکم دیا: ’’بے خوف ہوکر اسے پکڑ لے، ہم اسے اس کی پہلی صورت میں دوبارہ لے آئیں گے ۔‘ (طہ:21/20)
کہتے ہیں: آپ کو سخت خوف محسوس ہوا۔ آپ نے اپنا ہاتھ قمیص کی آستین میں ڈالا اور کپڑے میں لپیٹ کر اس کے منہ کے درمیان رکھا۔ اہل کتاب کہتے ہیں کہ آپ نے اس کی دم پکڑ لی ۔ جب اسے اچھی طرح پکڑ لیا ،تو وہ پہلے کی طرح دو شاخوں والا عصا بن گیا۔ پھر اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا کہ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالیں جب نکالا تو وہ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ یہ سفیدی پھلیہری وغیرہ کے مرض کی وجہ سے نہیں تھی ۔
◆ اس لیے اللہ تعالی نے فرمايا:
" اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال ۔ وہ سفید چمکیلا نکلے گا بغیر کسی عیب کے ۔ اور خوف سے ( بچنے کے لیے اپنے بازو اپنی طرف ملا لے۔‘(القصص:32/28)
کہا جا تا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تجھے خوف محسوس ہو تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ لے، تجھے تسکین ہو جاۓ گی ۔
◆سورہ نمل میں فرمایا:
اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال ۔ وہ سفید چمکیلا نکلے گا بغیر کسی عیب کے یہ نو نشانیوں میں سے ہے (ان کے ساتھ ) فرعون اور اس کی قوم کی طرف جا۔ یقیناََ وہ نافرمانوں کا گروہ ہے ۔‘(النمل: 12/27) عصا اور ہاتھ کے مےجزے کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے: ’’ پس یہ دونوں معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں ، فرعون اور اس کے در باریوں کی طرف ۔‘‘ (الـقـصـص:32/28)
ان کے ساتھ سات نشانیاں اور تھیں ۔ یہ نو نشانیاں ہیں ، جن کا ذکر اللہ تعالی نے سورۃ بنی اسرائیل کے آخر میں کیا ہے۔
◆ارشاد باری تعالی ہے:
’’اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں ۔سو بنی اسرائیل سے دریافت کر لو ۔ جب وہ ان کے پاس آۓ تو فرعون نے ان سے کہا کہ اے مءوی میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسانوں اور زمین کے پروردگار کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا (اور وہ بھی تم لوگوں کے سمجھانے کو ۔ اور اے فرعون ! میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہو جاؤ گے ۔ (بنی إسرائيل 101/17-102)
◆سورۂ اعراف میں ان کی تفصیل اس طرح مذکور ہے:
اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور پھلوں کے نقصان میں پکڑا تا کہ نصیحت حاصل کر میں۔ سو جب ان کو آسائش حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم اس کے مستحق ہیں اور اگر سختی پہنچتی تو موسیٰ اور ان کے رفیقوں کی بدشگونی بتاتے ۔ دیکھو ان کی بدشکونی اللہ کے ہاں ( مقدر ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے ۔ اور کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس (خواہ) کوئی بھی نشانی لے آؤ تا کہ اس سے ہم پر جادو کرو مگر ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ۔سو ہم نے ان پر طوفان طور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون، کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں مگر وہ تکبر ہی کرتے رہے اور وہ لوگ تھے ہی مجرم ‘‘ (الأعراف : 130/7-133)
یہ نو نشانیاں دس احکام سے مختلف ہیں ۔ بعض لوگوں نے ان دونوں معاملات کو خلط ملط کر دیا ہے جبکہ یہ الگ الگ ہیں۔
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ)
جاری ہے ۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com
fiza Tanvi
11-Jan-2022 07:25 AM
Good
Reply